ایمان احساس نہیں ہے۔
خدا پر بھروسہ کرنے کے بارےسمجھنا۔۔۔
میں نے ٹھندے پانی کے گلاس میں لیموں اور برف کو ڈالا۔ اپنی پنسل کو نکلا اور اپنی بائبل کو کھولااور میں بے تاب تھا اپنی اسائنمنٹ کو شروع کرنے کیلئے۔ پہلے دن میرے سمر سکول بائبل کورس کے پروفیسر نے ہمیں ہدایت دی تھی کہ، "کلاس میں رومیوں کی کتاب ایمان کے بارے میں جو کچھ کہتی ہے اس کے بارے میں ایک رپورٹ بنا کر لائیں ۔" یہ ایک آسان کام کی طرح لگ رہا تھا ، جس میں مجھے ذیادہ وقت نہیں لگتا۔
لیکن میں حیرت میں تھا۔ میں نے جلد ہی دریافت کیا کہ ایمان کا لفظ رومیوں میں متعدد بار آیا ہے اور یہ کہ میرے مطالعے میں میرے خیال سے زیادہ وقت لگے گا۔
ایمان کی تعریف
جیسا کہ میں نے پڑھا کہ رومیوں نے ایمان کے بارے میں کیا کہا ، میں نے اپنے آپ کو یہ سوال کرتے ہوئے پایا ، ایمان شاید میری زندگی کی سب سے اہم چیز ہے ، لیکن میں اس کی وضاحت کیسے کروں؟
یہ کیا ہے؟
میرا ذہن آٹھ سال پیچھے چلا گیا جب میں نے پہلی بار مسیحی تنظیم ، کیمپس کروسیڈ برائے مسیح میں شمولیت اختیار کی۔ تب میں ایمان میں چلنے کو نہیں سمجھتا تھا۔ میں اپنی سمجھ کے مطابق بہت آگے چل رہا تھا ، لیکن یہاں تک جاننے کے بعد اور ان تمام چیزوں کے ساتھ جو میں نے ایمان کے بارے میں سیکھیں ہیں ، میں نے محسوس کیا کہ میں اب بھی اس کی وضاحت نہیں کر سکا۔
میں جانتا تھا کہ بائبل نے ایمان کے سینکڑوں حوالہ جات دیے ہیں ، جیسے کہ "راستباز ایمان سے زندہ رہے گا" 1
اور "یہ وہ فتح ہے جس نے دنیا پر قابو پایا ہے — ہمارا ایمان۔" 2
لیکن میں حیران تھا کہ میں اِس کی سادہ سی ذاتی تعریف تک نا آسکا ، میں نے یہ بیان کبھی مکمل نہیں کیا تھا: "کہ میرے لیے ایمان کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
میں نے دُعا کی، خداوند، آپ میرے لیئے ایمان کی تعریف کیسے کریں گے؟
ایک کہانی مجھے یاد آئی، جس میں یسوع نے کسی سے کہا تھا۔ '' حتہ کہ اسرائیل میں بھی مجھے ایسا بڑا ایمان نہی ملا۔'' یہ کیا تھا جسے یسوع بڑا ایمان کہہ رہے تھے''؟
میں نے جلدی سے ایک حوالہ دیکھا جو کے لوقا 7 باب میں تھا یہ ایک صوبہ دار کے بارے میں تھا جو یہ ایمان رکھتا تھا کے یسوع اُس کے ایماندار اور بھروسہ مند نوکر کو ٹھیک کر سکتا تھا جو کے مرنے کے قریب ہی تھا۔
صوبہ دار نے یسوع سے کہا، ''کہ آپ بس کہہ ہی دو تو میرا نوکر شفا پا لے گا۔'' 3 اُس صوبیدار نے اپنی ذاتی مثال سے سمجھا کہ اِس کے الفاظ کو لینے اور اُس کی اطاعت کرنے کا کیا مطلب ہے۔
صوبیدار کے جواب میں، یسوع بھیڑ کی طرف موڑا جو اُس کا پیچھا کر رہی تھی اور کہا ،'' میں تم سے سچ کہتا ہوں، ایسا ایمان میں نے اسرائیل میں بھی نہیں پایا۔ ''4
ایسا لگ رہا ہے کے یسوع کہنا چاھ رہا ہے کے یہ ہے بڑا ایمان، کہ وہ شخض صرف اُس کے الفاظ کے کہہ دینے پر ہی شفا کی توقع رکھتا ہے۔
کیا اس تعریف کی تصدیق حوالوں میں کہیں اور بھی ملتی ہے۔ عبرانیوں 11 کو ایمان سے مطلق ،''حوالاجات سے بھرپور باب بھی کہا جاتا ہے۔'' تو پھر میں وہیں گیا۔
خدا کو اُس کے کلام میں پانا
اِن عبارات کو پڑھنے اور بار بار پڑھنے کے بعد، اِس کے تمام حوالے لفظ'' ایمان سے'' جوڑے ہیں تمام حوالوں میں، ایک چیز جو میں نےمشترک دیکھی۔ اِس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کے عبرانیوں کا مصنف کس کے بارے میں بات کر رہا تھا۔
قابلِ غور بات یہ تھی کہ ہر شخص نے خدا کے کلام کو لیا اور اُس کے حکموں کی فرمانبرداری کی۔ اور پھر اُن کو اپنے ایمان کی وجہ سے یاد کیا گیا۔
مثال کے طور پر ، خدا نے نوح سے کہا وہ ایک بڑی کشتی بنائے کیونکہ خدا وہاں بڑے پیمانے پر سیلاب لانے ولا تھا۔نوح نے خدا کے کلام کو قبول کیا اور ایک کشتی بنائی۔5
خدا نے ابراہام سے کہا، کہ وہ ایسی جگہ جائے جو اُسے وراثت میں دی جائے گی۔ابراہام نے خدا کے کلام کو قبول کیا اور سب کچھ چھوڑ کر چل پڑا۔ 6
خدا نے سارہ کی طرف اشارہ کیا، جس کی بچہ پیدا کرنے کی عمر گزر چکی تھی۔ کلام بتاتا ہے۔'' سارہ نے خدا کے کلام کو ایمانداری سے قبول کیا اور خدا کے وعدہ پر قائم رہی۔ ''7
حالات سے قطع نظر ، منطق اور دلائل کے باوجود ، اور اس سے قطع نظر کہ وہ کیسا محسوس کرتا ہے ، عبرانیوں 11 میں ذکر کردہ ہر شخص نے خدا اور اس کے کلام پر یقین کیا اور فرمانبردار ی کی۔
میں حیران ہوا ،اور سوچا کہ اگر لوقا 7 عبرانیوں 11 ایمان کی مثال دیتے ہیں تو کیاکوئی ایسے حوالے بھی ہیں جو ایمان کی کمی کو ظاہر کرتے ہوں؟
پھر مجھے مرقس 4 باب کا ایک واقعہ یاد آیا جس میں یسوع نے گیلیل کے کنارے تعلیم دیتے ہوئے دِن کا اختتام کیا تھا۔ اس نے شاگردوں کو ہدایت کی کہ وہ سمندر کے دوسری طرف چلیں۔ اُسی وقت اُنہوں نے یسوع کے کہنے پر عمل کیا ، اور کشتی میں اُس کے ساتھ دوسری طرف روانہ ہوئے۔ لیکن جب طوفان آیا تو وہ گھبرا گئے اور اُن کا ایمان ڈ گمگا گیا کہ کیا وہ کنارے پر پہنچ پائیں گے یا نہیں ۔ یسوع نے ان سے پوچھا ، "یہ کیسے ہوا کہ تمہارے ایمان مجھ پر نہ رہا؟"8 وہ آسانی سے کہہ سکتا تھا ، "تم میرے کلام کو حقیقت میں کیوں نہیں قبول کر رہے ؟"
مجھے ہمیشہ سے مرقس 5 باب کی پہلی آیت پسند ہے: "اور وہ سمندر کے دوسری طرف پہنچے۔" اوریسوع کا کلام سچ ثابت ہوا۔
ان تین حصوں کے مطالعے کے ذریعے ، میں ایمان کی ایک سادہ ، اور قابل عمل تعریف پر پہنچا : کہ ایمان خدا کے کلام کو حقیقت میں اپنی زندگی میں قبول کرنا ہے۔ مجھے پتہ نہیں تھا کہ رومیوں کی کتاب ایمان کے بارے میں کچھ اِس طرح بیان کرتی ہے ، لیکن میں نے جانا کہ میں نے اس سےکچھ سیکھا ہے جو خدا کے ساتھ چلنے میں بہت اہم ثابت ہوگا۔
خدا اپنے کلام کے بارے میں کیا کہتا ہے؟
پھر بھی ، میرا ایک اور سوال تھا۔ اگر ایمان خدا کے کلام کو قبول کرنے کا نام ہے تو خدا اپنے کلام کے بارے میں کیا کہتا ہے؟
مجھے اس کا جواب کتاب میں ہی مل گیا:"آسمان اور زمین ٹل جائیں گے ، لیکن میرے منہ کی باتیں ہرگز نہ ٹلیں گی۔"9۔
''خدا کا کلام ہمشہ قائم رہے گا۔''10
"گھاس مرجھا جاتی ہے ، پھول مرجھا جاتا ہے ، لیکن ہمارے خدا کا کلام ہمیشہ کے لیے قائم ہے۔"11
یہ آیات مجھے بتا رہی تھیں کہ زندگی میں سب کچھ بدل سکتا ہے ، لیکن خدا کا کلام لا تبدیل ہے۔ اس کی سچائی کبھی نہیں بدلتی۔ میں اس بات کے پہلوں کو دیکھنا شروع کر رہا تھا کہ خدا کے وعدوں پر ایمان میری باقی زندگی کو کس طرح متاثر کر سکتا ہے۔
مثال کے طور پر ، میں چیزوں کو بہت گہرائی سے محسوس کرتا ہوں۔ کئی بار مجھے لگتا ہے کے میں بہت خوش ہوں اور میں پھر کبھی اُداس نہیں رہوں گا۔ لیکن پھر ایسا لگتا ہے کہ میں بہت اُداس ہوں اور میں دوبارہ کبھی خوش نہیں رہوں گا… اور پھر کبھی ایسالگتا ہے کہ مجھے تقریبا کچھ بھی محسوس نہیں ہوتا۔
لیکن جتنےمضبوط میرے جذبات اور اِن میں اتار چڑھاؤ ہے، اتنا ہی مضبوط خدا کا کلام بھی ہے۔
- کسی بھی چیز سے زیادہ سچا ،جو میں محسوس کرتا ہوں۔
- میرے تجربات سے ذیادہ سچا۔
- کسی بھی صورتحال سے زیادہ سچا جس کا میں کبھی سامنا کروں گا۔
- دُنیا کی ہر چیز سے زیادہ سچا اور قابلِ اعتماد۔
کیوں؟ کیونکہ آسمان اور زمین ٹل جائیں گے ، لیکن خدا کا کلام نہیں ٹلے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میں کیسا محسوس کرتا ہوں یا میں کیا تجربہ کرتا ہوں ، میں اپنی زندگی کی غیر تبدیل شدہ حقیقت کے طور پر خدا کے کلام پر انحصار کرنے کا انتخاب کرسکتا ہوں۔
میں اُس موسمِ گرما کی شام اور اُس گھر کے کام کی مشق کو اپنی زندگی کا ایک اہم موڑ سمجھتا ہوں۔ اور اس کے بعد سے بہت بار، حالات اور احساسات زندگی سے زیادہ حقیقی لگ رہے ہیں ، میں نے یہ یقین کرنے کا انتخاب کیا ہے کہ خدا کا کلام کسی بھی چیز سے زیادہ سچا ہے۔ میں نے ایمان میں چلنے کا انتخاب کیا ۔ کبھی کبھی یہ انتخاب مشکل ہوتا ہے۔
احساسات کا کیا ہوگا؟
گرمیوں کی اُس شام کے بعد جب میں خدا کی محبت کو محسوس نہی کر پایا تھا۔ تب میں اِسی احساس پر ڈٹے رہنے کا انتخاب کر سکتا تھا۔
اُس نے مجھے خود پر ترس کھانے جیسے احساس سے گزرنے دیا ۔ یا میں اِسے اِس طرح بھی بیان کرسکتا ہوں کہ میں نےاُس کے پیار کو محسوس نہیں کیا۔ وہ سچ ہے اور یہ وہی ہے جہاں میں ابھی ہوں ، لیکن خداوند ، تیرا کلام کہتا ہے کے تو مجھ سے پیار کرتا ہے۔ حتہ کہ تو نے کہا کے تو نے مجھ سے ابدی محبت رکھی12۔ اور تیرا پیا رمیرے لیئے کبھی نہیں ختم ہو تا۔ اور تیر ا پیارایک ایسی چیز ہےجو میرے لیئے موجود رہتا ہے تب بھی جب سب کچھ فنا ہو جاتا ہے۔''13 تیرا کلام کہتا ہے کہ تو کسی کی طرفداری نہیں کرتا۔ اِس کا مطلب ہے،تو کسی اور سے دُنیا میں اتنا پیار نہیں کرتا جتنا مجھ سے کرتا ہے۔
اِس لئے خداوند میں تیرا شکرگزار ہوں کہ تو مجھ سے اِس قدر محبت کرتا ہے۔ تیرا کلام میرے محسوس کرنے کی حدود سے بھی زیادہ سچا ہے۔ ''14
میں نے محسوس کرنا شروع کیا کے میرے احساسات کیلئے اِس قسم کے جواب نے مجھے اپنے جذبات کے بارے میں خدا کے ساتھ ایماندار ہونے اور خدا کے کلام پر یقین کرنے کا انتخاب کرنے کی آزادی دی تب جب میرے جذبات اس کے وعدوں سے متصادم ہوں۔
دوسرے اوقات میں، میں نے خوف یا تنہائی یا افسردگی محسوس کی ہے۔ میرا دل زندگی کے حالات پر لفظی طور پر تکلیف میں ہے ، اور ان لمحوں میں، میں خدا کے کلام کی سچائی پر شک کرنے کے لیے سب سے زیادہ آزمایا گیا ہوں۔ لیکن اس کی بجائے میں نے اپنی مرضی سے اس کے کلام پر یقین کرنے کا انتخاب کیا۔ ہزاروں بار میری دعائیں اِن الفاظ سے شروع
ہوتی تھی ، " خداوند، میں محسوس کرتا ہوں ... لیکن ، خداوند ، آپ کا کلام کہتا ہے ..."
اور میں نے پایاکہ وہ میرے جذبات کو اپنے کلام کے مطابق ، اپنے وقت اور اس کے طریقے کے مطابق ڈھالتاہے۔
ہم جذباتی مخلوق کے طور پر بنائے گئے ہیں۔
جب میں اپنے آپ کو ملامت کرنے کے لیے آزمایا گیا اور یہ کہ میں کیسا محسوس کرتا ہوں تو اس نے مجھے یہ یاد رکھنے میں مدد دی کہ اُس نے ہمیں اپنی شبیہ پر بنایا ہے اور اس کی شبیہ کا یہ حصہ ہے کہ ہم جذباتی مخلوق ہیں۔
احساسات غلط نہیں ہیں۔ یہاں تک کہ مسیح کے بھی جذبات تھے۔ اس نے "محسوس نہ کرنے کی کوشش کی۔" اس نے اپنے جذبات کو نہیں چھپایا۔ اس کی بجائے ، وہ انہیں اپنے باپ کے ساتھ اپنے رشتے میں لے گیا۔ وہ ایماندار ، حقیقی اورمستند تھا۔ گتسمنی باغ میں اس کے مصلوب ہونے سے ایک رات پہلے ، صحیفہ ہمیں بتاتا ہے کہ یسوع "پریشان ،" "شدید غمگین ،" اور "اذیت میں" تھا15۔ یہ اس کے جذبات تھے۔
ہمیں بھی ، اپنے جذبات کے بارے میں خدا کے ساتھ صاف گو رہنے کی بڑی حد تک آزادی ہے ، ایمانداری سے بتائیں کہ ہم کہاں ہیں اور ہماری زندگی میں کیا ہو رہا ہے۔
ہم کیسے جواب دیتے ہیں؟
بائبل وعدہ کرتی ہے کہ ہم میں سے جو خدا سے سچا پیار کرتے ہیں ، اُن کی زندگی میں جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ اُنہیں مسیح کی شبیہ میں ڈھالنے کیلئے اثر انداز ہوگا۔ ہم میں سے شاید کچھ لوگوں نے اِ س طرح کی دُعا کی ہو گی ۔ خداوند میں دُعا کرتا ہوں کے مجھے اپنے جیسا بنا ۔ میری دُعا ہے کہ تو مجھے مسیح کی شبیہ کے مطابق ڈھال دے۔ اکثر ، جو ہم واقعی چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ خدا ہمیں سکون میں لے جائے تاکہ ہم بے ہوشی کی سی کفیت میں چلے جائیں اور تب وہ ہمارے دلوں کی سرجری کرتا ہے تاکہ ہمیں مسیح کے کامل کردار کے مطابق بنائے۔ جب تک ہم بدل نہیں جاتے ہم جاگنا نہیں چاہتے! ہم نتیجہ چاہتے ہیں لیکن تکلیف دہ عمل نہیں۔
لیکن خدا اس طرح کام نہیں کرتا۔ ہم جس طرح کے حالات سے گزرتے ہیں خدا اِس کیلئے فکرمند ہوتا ہے ، لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ اس بات کیلئے زیادہ فکر مند ہے کہ ہم کس طرح ایسے حالات سے گزرتے ہیں اور اِس کا جواب کیسے دیتے ہیں۔ یہ جواب ہماری مرضی سے ہے۔ وہ زندگی کی آزمائشوں اور دباؤ کو آنے دیتا ہے تاکہ ہمیں اپنے جذبات اور زندگی کے تجربات پر بھروسہ کرکے یا اُس کے کلام پر عمل کرکے جواب دینے کا موقع ملے۔
میں نے اپنے آپ کو خدا کے کلام کو قبول کرنے کی عادت ڈالنا سیکھایا ہے اور اب یہ ایک عادت بن بھی چکی ہے! آپ اور میں یا تو ہمارے جذبات ، خیالات اور حالات سننے کے عادی ہو سکتے ہیں ،اور انہیں اپنے آپ پر قابو پانے دے سکتے ہیں ، یا ہم اپنے جذبات اور زندگی کے تجربات کے باوجود خدا کے کلام کو قبول کرنے کی عادت ڈال سکتے ہیں۔ ہمیں اپنی مرضی کے ساتھ اس بات کا یقین کرنے کی ضرورت ہے کہ اس کا کلام ہمارے جذبات سے زیادہ سچا ہے۔
میں نے زندگی بھر کیلئے عہد کیا ہے خدا کے کلام کے ساتھ جڑے رہنے کا ، اور خدا نے میرے اس عہد کو عزت دی۔ پھر بھی ، ایسے وقت آئے ہیں جب میں اپنے اِس عہد سے آسانی سے پیچھے ہٹ سکتا تھا۔ کیونکہ میں یہ یقین نہیں کر سکتا تھا کہ میں جن حالات میں سے گزر رہا تھا اس سے زیادہ کچھ بھی سچ ہو سکتا ہے۔ ایسے وقت میں جب میرے جذبات خدا کے کلام کی 180 ڈگری مخالف سمِت تھے لیکن میں نے بار بار خدا کو اپنے کلام کے مطابق وفادار پایا ہے۔
حوالاجات:
(1) رومیوں kjv 1:17 (2) 1 یوحنا 5:4 (3) لوقا7:7 (4 ) لوقا7:9 (5) عبرانیوں 11:17 (6) عبرانیوں 11:8
(7) عبرانیوں 11:11 (8) مرقس 4:40 (9) متی 24:35 (10) 1 پطرس 1:25 (11) اشعیاہ 40:08 (12)
یرمیاہ 31:3 (13) 1 کرنتھیوں 13 (14) عمال 10:34 (15) متی 26:37-38 مرقس 14:33 لوقا 22:23
(16) رمیوں8:28-29
یہ مضمون نےبیلےکی کتاب ایمان احساس نہیں ہے سے لیا گیا ہے۔کاپی رائٹ 2002 © جاری کردہ واٹر بک پریس۔ مضنف کی اجازت سے یہاں استعمال کیا گیا ہے۔